*محمد علی محمدی منہج اہلحدیث*
اللہ ربّ العزت نے محمد مصطفی ﷺ کو پوری کائنات کا سردار بنایا ہے نبی رحمت ﷺ کی ہر بات اہلحدیث کے سر کا تاج ہے یہی وجہ ہے کہ اہلحدیث محمد مصطفی ﷺ سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھائی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین امت کی بہترین ہستیاں ہے تمام صحابہ جنتی ہیں اللہ تعالیٰ نے نبی رحمت ﷺ کے ساتھی بھی ایسے چنے جسکی مثال نہیں ملتی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ عظیم شرف حاصل ہے کہ نبی رحمت ﷺ کا حالات ایمان میں دیدار کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہمارا ایمان ہیں ہمیں صحابہ سے بڑی محبت ہے لیکن ہر وہ بات جو صحابہ کی طرف منسوب ہو ثابت نہ ہو اسے ہم نہیں مانتے بہت سی باتیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہیں جس میں بے سند اور ضعیف وغیرہ بھی ہیں اسی میں سے ایک روایت ادب المفرد کی بھی ہے جسکو بہت سے لوگ پیش کر کے اپنے عقیدے کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے حق سچ لکھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*ندا یا محمد پر پیش کردہ دلیل ملاحظہ فرمائیں*
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا تو ایک شخص نے ان سے کہا جو آدمی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اس کا نام لیجیے ۔ تو انھوں نے کہا یا محمد
*﴿الادب المفرد﴾*
اس روایت کی سند پر بحث کرنے سے پہلے متن پر بحث کرنا بہت ضروری ہے تاکہ جو لوگ اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں انکو سمجھنے میں آسانی ہو
*بریلوی علماء اور ندا یا محمد*
﴿1﴾حضور اقدس ﷺ کا نام پاک لے کر نداء کرنی ہمارے نزدیک بھی جائز نہیں۔ *﴿روحوں کی دنیا ص 245﴾*
﴿2﴾نبی کریم ﷺ کو اس طرح نہ پکارو جس طرح ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی انداز نداء و خطاب بدل دیا اور امت کو بھی اس امر کا پابند کر دیا۔
*﴿الوفا باحوال مصطفیٰ ﷺ علامہ ابن الجوزی مترجم اشرف سیالوی صاحب﴾*
﴿3﴾حضور ﷺ کو نام نامی کے ساتھ پکارنا شرعاً منع ہے۔
*﴿فتاویٰ بحر العلوم ج 6 ص 234﴾*
﴿4﴾ حضور ﷺ کو یامحمد کہہ کر پکارنا حرام ہے۔
*﴿جاء الحق ص 173﴾*
﴿5﴾حضور ﷺ کو نام پاک لے کر پکارنا حرام ہے ۔
*﴿شان حبیب الرحمن من آیات القرآن ص 236﴾*
جب بریلوی علماء خود اس بات کے معترف ہیں کہ یامحمد کہہ کر نداء کرنی حرام ہے تو پھر اس روایت کو بطور دلیل پیش کرنا یہ دوغلی پالیسی ہے ایک طرف خود فتویٰ بھی دیتے ہیں اور دوسری طرف بریلوی حضرات اس روایت کو بطور دلیل پیش بھی کرتے ہیں لہذا تمام دوستوں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئ کہ دلیل پیش کرنے والے حضرات خود اس کے قائل ہی نہیں صرف ایک ضد کی بنا پر روایت پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے آمین
*نوٹ*
میری تحریر پر دیا گیا جواب وہی قابل قبول ہو گا جس میں میری ہر بات کا جواب دیا گیا ہو ورنہ کسی بات کا جواب نہیں دیا جاۓ گا۔
*روایت کی سند پر بحث*
اس روایت کی سند میں ایک راوی سفیان الثوری ہے جو مدلس ہے اور مدلس اگر عن سے روایت کرے تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے اس پر بیشمار حوالے موجود ہیں جنکو شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں درج کیے ہیں جو بھائی مدلس کی روایت کا حکم سمجھنا چاہتے وہ وہ عظیم محدث شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب *انوار الطریق فی رد ظلمات فیصل حلیق* کی طرف رجوع کریں یہاں کچھ حوالے ذکر کر رہا ہوں تاکہ مدلس کی روایت کا حکم سمجھ میں آ جاۓ
1 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’فقلنا لا نقبل من مدلّس حدیثًا حتی یقول فیہ: حدثني أو سمعت‘‘
پس ہم نے کہا: ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، حتی کہ وہ حدثنی یا سمعت کہے/ یعنی سماع کی تصریح کرے۔
*﴿کتاب الرسالہ طبع المطبعۃ الکبری الامیریہ ببولاق 1321ھ ص 53، بتحقیق احمد شاکر: 1035﴾*
2 خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’و قال آخرون: خبر المدلس لا یقبل إلا أن یوردہ علٰی وجہ مبین غیر محتمل لإیھام فإن أوردہ علٰی ذلک قُبِلَ، و ھذا ھو الصحیح عندنا‘‘
اور دوسروں نے کہا: مدلس کی خبر (روایت) مقبول نہیں ہوتی اِلا یہ کہ وہ وہم کے احتمال کے بغیر صریح طور پر تصریح بالسماع کے ساتھ بیان کرے، اگر وہ ایسا کرے تو اس کی روایت مقبول ہے اور ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے۔
*﴿الکفایہ فی علم الروایہ ص 361﴾*
3 حافظ ابن الصلاح الشہرزوری الشافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’والحکم بأنہ لا یقبل من المدلّس حتی یبین، قد أجراہ الشافعي رضي اللہ عنہ فیمن عرفناہ دلّس مرۃ۔ واللہ أعلم‘‘
’’اور حکم (فیصلہ) یہ ہے کہ مدلس کی روایت تصریحِ سماع کے بغیر قبول نہ کی جائے، اسے شافعی رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں جاری فرمایا ہے جس نے ہماری معلومات کے مطابق صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہے۔ واللہ اعلم‘‘
*﴿مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح للعراقی ص 99﴾*
4 حافظ ابن حبان البستی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’فما لم یقل المدلّس و إن کان ثقۃ: حدثني أو سمعت فلا یجوز الإحتجاج بخبرہ، و ھذا أصل أبي عبد اللہ محمد بن إدریس الشافعي - رحمہ اللہ - و من تبعہ من شیوخنا‘‘
پس جب تک مدلس، اگرچہ ثقہ ہو، حدثنی یا سمعت نہ کہے (یعنی سماع کی تصریح نہ کرے) تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے اور یہ ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کی اصل (بنیادی اصول) ہے اور ہمارے اساتذہ کا اصول ہے جنھوں نے اس میں اُن کی اتباع (یعنی موافقت) کی ہے۔
*﴿کتاب المجروحین ج1ص 92﴾*
5 علامہ یحییٰ بن شرف النووی (متوفی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’فما رواہ بلفظ محتمل لم یبین فیہ السماع فمرسل ۔۔۔ و ھذا الحکم جار فیمن دلّس مرۃ‘‘
پس وہ (مدلس راوی) ایسے لفظ سے روایت بیان کرے جس میں احتمال ہو، سماع کی تصریح نہ ہو تو وہ مرسل ہے۔۔۔ اور یہ حکم اس کے بارے میں جاری ہے جو ایک دفعہ تدلیس کرے۔
*﴿التقریب للنووی فی اصول الحدیث ص 9 نوع 12، تدریب الراوی للسیوطی 1/ 229۔230﴾*
*مرسل کے بارے میں نووی نے کہا:*
’’ثم المرسل حدیث ضعیف عند جماھیر المحدثین ۔۔۔‘‘
پھر (یہ کہ) مرسل ضعیف حدیث ہے، جمہور محدثین کے نزدیک ۔۔۔ *﴿التقریب للنووی ص 7 نوع 9﴾*
6 حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:
’’وحکم من ثبت عنہ التدلیس إذا کان عدلاً، أن لا یقبل منہ إلا ماصرح فیہ بالتحد یث علی الأصح‘‘
صحیح ترین بات یہ ہے کہ جس راوی سے تدلیس ثابت ہو جائے، اگرچہ وہ عادل (ثقہ) ہو تو اُس کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔
*﴿نزھۃ النظر شرح نخبۃ الفکر ص 66، ومع شرح الملاعلی القادری ص 419﴾*
اس پر بہت سارے حوالے ہیں جو اگر یہاں درج کریں تو تحریر لمبی ہو جاۓ گی اس لیے میں اسی پر اکتفا کرتے ہوۓ اپنی بات کو آگے بڑھاتا ہوں
*بریلوی علماء اور مدلس کی روایت*
*مدلس کی روایت کا حکم*
ایسی احادیث ضعیف کی اہم اقسام سے ہیں علماء نے اس عمل کو نہایت مکروہ بتایا ہے اور بہت مذمت کی ہے امام شعبہ نے تدلیس کو کذب بیانی کا دوسرا عنوان بتایا ہے۔
*﴿جامع الاحادیث ج 1 ص 526 احمد رضا بریلوی صاحب﴾*
عبد الرزاق بھترالوی حطاروی بریلوی صاحب ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ امام مکحول مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے لہذا یہ حدیث دلیل بنانے کے لائق نہیں
*﴿نماز حبیب کبریا ص 217﴾*
امام مکحول رحمہ اللہ پر نصرت الحق کے صفحہ نمبر 224 پر بھی جرح کی گئ ہے محبت علی قادری صاحب کی کتاب میں۔
سفیان الثوری مدلس ہیں اصول محدثین کے تحت مدلس کی معنعن روایت قابل قبول نہیں۔
*﴿مناظرے ہی مناظرے ص 249 عباس رضوی صاحب﴾*
سفیان الثوری کی بیان کردہ معنعن روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ سفیان الثوری کی اس روایت میں تدلیس کا شبہ ہے۔
*﴿فقہ الفقیہ ص 134 محمد شریف کوٹلوی صاحب﴾*
عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمد میں مردود و نا مستند ہے۔
*﴿فتاویٰ رضویہ ج 5 ص 246﴾*
بعض لوگ طبقاتی تقسیم مانتے ہیں لیکن جمہور محدثین کے مقابلے طبقاتی تقسیمِ درست نہیں۔
*اس روایت کے دوسرے راوی ابو اسحاق السبیعی پر تبصرہ*
ابو اسحاق السبیعی کا اس روایت میں اپنے شیخ کے تذکرے میں اضطراب ہے۔
کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ہے دیکھیے
*﴿غريب الحديث للحربي 2/ 673﴾*
کبھی اپنے شیخ کا نام الھیثم بن حنش بتایا۔ دیکھیے
*﴿عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141﴾*
کبھی اپنے شیخ کا نام ابوبکر بن عیاش بتایا۔ دیکھیے
*﴿عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141﴾*
کبھی اپنے شیخ کا نام عبد الرحمن بن سعد بتایا۔ دیکھیے
*﴿ابن عساکر فی تاريخ مدينة دمشق 31/ 177﴾*
ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں اور اصول محدثین کے تحت مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
ابو اسحاق السبیعی مدلس بھی تھے دیکھیے
*﴿التقریب 5065﴾
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے جو لوگ طبقاتی تقسیم کے قائل ہیں انکے اصول کے تحت بھی روایت ضعیف ہے دیکھیے
*﴿طبقات المدلسین لا بن حجر ص 42﴾*
اتنے مضبوط دلائل جو اس روایت کے ضعف کو کھول کر بیان کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ ضد پرستی کی آڑ میں اس روایت کو صحیح مانے بیٹھے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں حق بات تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*محمد علی محمدی منہج اہل بیت*
Comments